سلسلہ درسِ ضیاءالقران
از حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمۃ
قسط 117 سورہ البقرة آیات نمبر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ (178)
ترجمہ:
اے ایمان والوں فرض کیا گیا ہے تم پر قصاص جو (ناحق) مارے جائیں آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ، پس جس کو معاف کی جائے اس کے بھائی (مقتول کے وارث ) کی طرف سے کچھ چیز تو چاہئے کہ طلب کرے (مقتول کا وارث ) خون بہا دستور کے مطابق اور (قاتل کو چاہئے) کہ اسے ادا کرے اچھی طرح۔ یہ رعایت تمہارے رب کی طرف سے اور رحمت ہے ۔ تو جس نے زیادتی کی اس کے بعد تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے
تفسیر:
اسلام سے پہلے عرب میں دستور تھا کہ اگر طاقتور قبیلے کا کوئی شخص قتل کر دیا جاتا وہ صرف قاتل کے قتل پر اکتفا نہ کرتے بلکہ قاتل کے قبیلہ کے دس دس بیس بیس آدمی قتل کرنا اپنا حق سمجھتے۔ اگر کسی آزاد کو غلام قتل کر دیتا تو غلام کے بدلے غیر قاتل آزاد کا سر قلم کیا جاتا اور اگر عورت قتل کرتی تو مرد قتل کیا جاتا۔ اسی ظالمانہ اور غیر اسلامی دستور پر صدیوں عمل ہوتا رہا۔ اور عرب اپنی نسلی نخوت اور قبائلی برتری کی تسکین بےگناہوں کا خون بہا بہا کر کرتے رہے۔ قرآن کریم نے اس دستور کو یک قلم منسوخ کر دیا۔ اور حکم دیا کہ مقتول کا قتل ہی قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام ۔ یہ رواج صرف عرب میں ہی نہ تھا بلکہ دوسری قوموں میں بھی تھا بلکہ آج تک یورپ کی حکمران قومیں بھی اس پر عمل پیرا رہی ہیں۔ جنوبی افریقہ کے حبشی، آسٹریلیا کے اصلی باشندے اور امریکہ کے ریڈ انڈین آج بھی اس پر شاہد ہیں۔ یہ فخر اسلام کو ہی حاصل ہے کہ اس نے جھوٹے امتیازات کے بت مدت ہوئی پاش پاش کر دئیے اور انسانی مساوات کا صرف قانون ہی پیش نہیں کیا بلکہ عمل کر کے دکھایا۔
قانون قصاص میں ایک اور اہم تبدیلی کی جا رہی ہے۔ وہ یہ کہ اگر مقتول کے وارث قاتل سے صلح کرنا چاہیں تو وہ خون بہا لے کر صلح کر سکتے ہیں۔ آج کل کے قانون میں قتل کا جرم صلح کے قابل نہیں جس سے بہت خرابیاں پیدا ہو تی ہیں۔ اسلام نے ان خرابیوں کا احساس کر تے ہوئے صلح کی اجازت دے دی۔
من اخیہ کا لفظ بڑی شان رکھتا ہے۔ ایسی حالت میں جبکہ قاتل قتل کا ارتکاب کر چکا ہے۔ محبت، پیار، رحم اور شفقت کے تمام رشتے ٹوٹ چکے ہیں۔ عداوت اور انتقام کی آگ بھڑکنے لگی ہے۔ قرآن مقتول کے غضبناک وارثوں کو یاد دلاتا ہے کہ قاتل مجرم ہے، قصور وار ہے اور تمہارا غصہ بےجا بھی نہیں۔ تا ہم تمہارا اسلامی بھائی تو ہے۔ اگر بخش دو ، معاف کردو تو کوئی بڑی بات نہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ٹوٹے ہوئے دل پھر جڑ جائیں۔ اور اسلام معاشرے کے دامن میں جو چاک پڑ گیا ہے اسے پھر سے سی دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی پاک کلام کی یہی لطافتیں تھیں جنہوں نے عرب کے سرکشوں کو مطیع بنا دیا تھا۔
مقتول کے وارثوں کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ جس بھائی پر تم نے اتنا احسان کیا اب اس سے خوں بہا اس احسن طریقہ سے طلب کرو کہ اسے تکلیف نہ ہو۔ اور قاتل کو ہدایت فرمائی کہ وہ احسان فراموش نہ بنے بلکہ خوشی خوشی جلدی جلدی خون بہا ادا کر دے۔
قتل کی سزا قتل ہی تو مقرر نہیں فرمائی بلکہ خوں بہا ادا کرنے کی بھی گنجائش رکھی ہے۔ یہ محض تمہارے رب کا تم پر احسان ہے۔
تصفیہ کے بعد بھی جو زیادتی کرے گا۔ قاتل ہو یا مقتول کے رشتہ دار اسے دردناک سزا دی جائے گی۔ ہر ایک کو قانون کا احترام اور پابندی کرنا چاہئے۔ اسی لئے شریعت اسلامیہ نے قصاص لینے، حدود قائم کرنے اور تعزیرات لگانے کا حق افراد کو نہیں دیا بلکہ صرف حکومت وقت کو دیا ہے کیونکہ عدل وانصاف قائم رکھنے کی صرف یہی صورت ہے۔ اگر افراد کو یہ حق مل جائے تو وہ افراتفری پیدا ہو کہ الامان!
والسلام
Hi! I am a robot. I just upvoted you! I found similar content that readers might be interested in:
https://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D9%8A%D9%8E%D8%A7-%D8%A3%D9%8E%D9%8A%D9%91%D9%8F%D9%87%D9%8E%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D9%91%D9%8E%D8%B0%D9%90%D9%8A%D9%86%D9%8E-%D8%A2%D9%85%D9%8E%D9%86%D9%8F%D9%88%D8%A7%D9%92-%DB%94-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D9%85%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%A7%D9%84%D9%88.99899/page-5
Thank you @cheetah