سلسلہ درسِ ضیاءالقران
از حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمۃ
قسط 116 سورہ البقرة آیت نمبر 177
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ(177)
ترجمہ:
نیکی (بس یہی ) نہیں کہ (نماز میں ) تم پھیر لو اپنے رخ مشرق کی طرف اور مغرب کی طرف بلکہ نیکی (کا کمال ) تو یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان لائے اللہ پر اور روز قیامت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور سب نبیوں پر اور دے اپنا مال اللہ کی محبت سے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو اور (خرچ کرے ) غلام آزاد کرنے میں اور صحیح صحیح ادا کیا کرے نماز اور دیا کرے زکوٰۃ اور جو پورا کرنے والے ہیں اپنے وعدوں کو جب کسی سے وعدہ کرتے ہیں اور کمال نیک ہیں جو صبر کرتے ہیں مصیبت میں اور سختی میں اور جہاد کے وقت یہی لوگ ہیں جو راستباز ہیں اور یہی لوگ حقیقی پرہیزگار ہیں
تفسیر:ہر دین میں بعض ظاہری اعمال ہوتے ہیں اور بعض حقیقی مقاصد کیونکہ ان ظاہری اعمال سے انسان دین کے حقیقی مقاصد تک آسانی سے پہنچ سکتا ہے اس لئے ان ظاہری اعمال کی بجا آوری نہایت ضروری ہوتی ہے۔ جب تک قوم دین کا دامن مضبوطی سے تھامے رہتی ہے۔ وہ ان ظاہری اعمال اور حقیقی مقاصد دونوں کو پیش نظر رکھتی ہے اور دونوں کو یکساں اہمیت دیتی ہے لیکن جب دین کا ولولہ سرد پڑ جاتا ہے تو آہستہ آہستہ حقیقی مقاصد آنکھوں سے اوجھل ہونے لگتے ہیں اور قوم صرف ظاہری اعمال کی ادائیگی کو کافی سمجھنے لگتی ہے اور ان ظاہری اعمال میں حقیقی مقاصد تک پہنچنے کا جذبہ دم توڑ چکا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اعمال بےجان رسوم ہو کر رہ جاتے ہیں اور غلط اندیش قوم انہیں رسوم کی بجا آوری کو ہی سب سے بڑی نیکی شمار کرنے لگتی ہے اور حقیقی مقاصد سے یکسر غافل ہو جاتی ہے۔ مثلاً نماز اور روزہ اسلام کی بنیادی عبادات میں سے ہیں لیکن حضور رحمت للعلمین (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نماز متعلق ارشاد فرمایا کہ جو نماز نمازی کو بدکاری سے باز نہ رکھ سکے
فلم تزدہ من اللہ الا بعدا (او کما قال علیہ الصلوۃ والسلام ) وہ نماز اسے خدا سے اور زیادہ دور کر دے گی
روزہ سے متعلق ارشاد ہے من لم یدع قول الزورالعمل بہ فلیس لللہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ ۔ روزے دار اگر جھوٹ بولنے اور اس پر عمل کرنے سے باز نہ آئے تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس آیت کریمہ میں اسی حقیقت کو کھول کر بیان فرمایا گیا ہے تاکہ امت مسلمہ پہلی امتوں کی طرح چند ظاہری اعمال پر ہی قانع نہ ہو جائے اور نیکی اور طاعت کو انہی میں منحصر نہ سمجھ بیٹھے۔ صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں کہ لیس البر کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مقررہ سمت کی طرف منہ کرنا نیکی اور طاعت ہے ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی صرف اسی میں منحصر نہیں یہ بھی نیکی ہے اور اس کے علاوہ اور بھی نیکی اور اطاعت کے کام ہیں جو حقیقی مقاصد ہیں اور تمہاری توجہ کے زیادہ مستحق ہیں
سابقہ غلط فہمی کو دور کرنے کے بعد بڑی وضاحت اور خاص ترتیب سے اسلام کے جملہ حقیقی مقاصد بیان فرمائے جا رہے ہیں۔ اسلام کی ساری تعلیم ان چا ر عنوانوں کے نیچے درج کی جا سکتی ہے ۔ 1۔ عقائد۔ 2۔ معاملات۔ 3۔ عبادات ۔ 4۔ اخلاق
من امن سے لے کر والنبیین تک عقائد اسلامیہ کا ذکر فرمایا
اتی المال سے وفی الرقاب تک معاملات کا بیان ہوا۔
اقام الصلوۃ واتی الزکوۃ سے اسلامی نظام عبادات کے دو اہم ترین رکن نماز وزکوٰۃ بتائے گئے۔ اس کے بعد اسلام جس ضابطہ اخلاق کی پابندی کا اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے اس کی وضاحت کر دی گئی۔ کاش ایسا مکمل اور لاثانی دستور حیات رکھنے والی امت اس پر عمل کرنے کی ضرورت کو بھی محسوس کرے تو وہ اپنے آپ میں اور اپنے گردوپیش میں ایک واضح انقلاب محسوس کرنے لگے
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود جاں
چوں دیگر شد جہاں دیگر شود
(اقبال رحمہ اللہ)
قاعدہ کے مطابق والصابرون ہونا چاہئے لیکن خلیل امام نحو نے کہا کہ یہاں الصابرین منصوب علی المدح ہے۔ اس لئے اس معنی مدح کو جو قرآن کا مدلول ہے ترجمہ میں ظاہر کرنا از حد ضروری ہے اسی لئے میں نے یہ ترجمہ کیا ہے
والسلام