اصفہانی خاندان کا تعلق کلکتہ سے تھا‘ یہ لوگ کلکتہ کے انتہائی متمول خاندانوں میں شمار ہوتے تھے‘ ابو الحسن کا تعلق اسی اصفہانی خاندان سے تھا‘ یہ کیمبرج میں پڑھتے تھے. مسلم لیگ کے ساتھ مختلف عہدوں پر کام کیا‘ پاکستان بنا تو ابو الحسن اصفہانی کروڑوں روپے کے اثاثوں کے ساتھ پاکستان شفٹ ہو گئے‘ ڈھاکہ اور کراچی دونوں ان کے کاروباری مرکز تھے‘ ان دونوں شہروں میں ان کے کارخانے‘ کوٹھیاں‘ پلازے ‘ فارم ہاؤسز اور زمینیں تھیں‘ امریکا میں سفیر کی تعیناتی کا مرحلہ آیا تو قائد اعظم نے اصفہانی صاحب کوپہلا سفیر بنا کر امریکا بھجوا دیا‘ یہ وہاں پانچ سال سفیر رہے‘ پھر دو سال برطانیہ میں ہائی کمشنر رہے‘ پھر ایک سال صنعت اور تجارت کے وفاقی وزیر بنے‘ بھٹو صاحب کا دور آیا تو انھیں افغانستان میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا‘ یہ اصفہانی صاحب کا سفارتی اور سیاسی پروفائل تھا جب کہ دوسری طرف یہ معاشی اور تجارتی میدانوں میں بھی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے رہے‘ یہ صدر ایوب خان دور میں ان 22 خاندانوں میں شامل تھے جو ملک کے زیادہ تر وسائل کے مالک تھے‘ اصفہانیوں کے بارے میں کہا جاتا تھا‘ آپ پاکستان کے کسی حصے سے کوئی چیز خریدیں منافع کا ایک حصہ کسی نہ کسی ذریعے سے ہوتا ہوا اصفہانی گروپ تک پہنچ جائے گا‘ ابوالحسن اصفہانی کے تین بچے تھے‘ سکندر اصفہانی ان کے بڑے صاحبزادے تھے‘ اصفہانی صاحب سفارت اور سیاست میں مصروف رہتے تھے چنانچہ کاروبار کی ذمے داری سکندر اصفہانی کے کندھوں پر تھی‘ یہ خاندان ایوب خان اور بھٹو کے زمانے میں کھرب پتی ہو گیا‘ بھٹو صاحب نے صنعتیں قوما لیں لیکن اس کے باوجود اصفہانی خاندان کے پاس کراچی میں اربوں روپے کی پراپرٹی تھی‘ سکندر اصفہانی نے دو شادیاں کیں‘ پہلی اہلیہ سے چار بچے ٗ دوسری اہلیہ بے اولاد ہیں ۔ 1990ء کی دہائی میں جائیداد کا جھگڑا شروع ہوا‘ عدالتوں اور کچہریوں کا معاملہ چلا تو نوبت یہاں تک آ گئی وہ کراچی شہر جو کبھی اصفہانی خاندان کا گھر کہلاتا تھا اس شہر میں سکندر اصفہانی کے رہنے کے لیے کوئی چھت نہ بچی‘ سکندر اصفہانی سندھ کلب میں شفٹ ہو گئے‘ یہ دو سال کلب میں رہے اور دسمبر 2013ء میں سندھ کلب میں انتقال کرگئے‘ کلب سے ان کا جنازہ اٹھا‘ جنازے میں چند لوگ شامل تھے اور ان لوگوں میں ان کے خاندان کا کوئی شخص شامل نہیں تھا‘ سکندر اصفہانی فرح ناز اصفہانی کے والد اور حسین حقانی کے سسر تھے۔
یہ دولت کی بے وفائی اور دنیا کی بے ثبانی کا ایک واقعہ ہے‘ آپ اب پاکستان کے پانچ بڑے صنعتی گروپوں میں شامل ایک دوسرے خاندان کی کہانی بھی ملاحظہ کیجیے
سہگل خاندان ایوب خان دور کے 22 خاندانوں میں پہلے پانچ خاندانوں میں شمار ہوتا تھا‘ یہ لوگ چکوال کے رہنے والے تھے‘ یہ دوسری جنگ سے قبل کلکتہ گئے‘ وہاں چمڑے کا کاروبار شروع کیا اور اس کاروبار پر مناپلی قائم کرلی‘ یہ لوگ قیام پاکستان کے بعد کراچی آ گئے سہگل خاندان نے پچاس کی دہائی میں کوہ نور ٹیکسٹائل کے نام سے فیصل آباد اور راولپنڈی میں دو کارخانے لگائے‘ یہ کارخانے اتنے بڑے اور کامیاب تھے کہ آج بھی ان علاقوں کو کوہ نور کہا جاتا ہے‘ ایوب خان کا دور سہگل خاندان کے عروج کازمانہ تھا ٗسہگلوں نے پاکستان کا تیسرا بڑا بینک بنایا تھا یہ گھی کی صنعت میں آئے‘ ریان کپڑا شروع کیا‘ کیمیکل اور مشینری کے شعبے میں آئے اور عروج کو ہاتھوں میں تھام لیا‘ محمد یوسف سہگل اس خاندان کے سربراہ تھے‘ یہ 1993ء میں فوت ہوئے‘ ان کی تدفین سے قبل خاندان میں پھوٹ پڑ گئی‘ بچے دولت اور جائیداد کے لیے لڑنے لگے اور آج اس خاندان کا صرف نام بچا ہے۔
آپ اب لاہور کے ایک فلم ساز کی کہانی بھی سنیے‘ وہ پاکستان کے چوٹی کے فلم ساز تھے‘ یہ پشاور کے رہنے والے تھے‘ یہ 21 سال کی عمر میں فلمی لائین میں آئے‘ صوبہ سرحد میں فلموں کے ڈسٹری بیوٹر بنے‘ جگت ٹاکیز اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی فلم کمپنی تھی‘ وہ اس کمپنی کی فلمیں ریلیز کرنے لگے‘ ایک وقت آیا جب وہ فلمساز جگت ٹاکیز کی تمام فلمیں ریلیز کرنے لگے‘ انھوں نے صوبہ سرحد میں ذاتی سینما بنالیے‘ یہ قیام پاکستان کے بعد لاہور شفٹ ہوئے‘ انھوں نے 1950ء میں ’’مندری‘‘ فلم بنائی‘ فلم کامیاب ہو گئی تو انھوں نے ایک فلمی کمپنی بنا لی‘ یہ بعد ازاں پاکستان کے معروف فلم اسٹوڈیو میں تبدیل ہو گئی‘ وہ فلمساز لاہور کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے‘ گلبرگ میں ان کی کئی کنال کی کوٹھی تھی‘ یہ 1974ء میں بیمار ہوئے اور گھر تک محدود ہو گئے‘ نعیم بخاری صاحب نے ان دنوں نئی نئی پریکٹس شروع کی تھی‘ یہ ان فلمساز کے ایک صاحبزادے کے وکیل تھے‘ اسی صاحبزادے نے ایک دن نعیم بخاری کو ساتھ لیا اور والد کے گھر پہنچ گیا‘ اداکار محمد علی بھی وہاں موجود تھے‘ بیٹے نے باپ سے جائیداد کا مطالبہ کر دیا‘ وہ والد سے گلبرگ لاہور والی کوٹھی لینا چاہتا تھا‘ باپ نے بیٹے کی منت کی میں بیمار ہوں‘ میں اس حالت میں کہاں جاؤں گا ‘ میں آپ کو یہ کوٹھی لکھ دیتا ہوں‘ آپ کاغذات اپنے پاس رکھ لو‘ میرے مرنے کے بعد کوٹھی کا قبضہ لے لینا‘‘ بیٹے نے انکار کر دیا‘ اس کا کہنا تھا
’’ابا جی آپ کو یہ گھر ابھی خالی کرنا ہوگا‘‘ فلمساز کی صورتحال پر محمد علی اور نعیم بخاری دونوں کو ترس آ گیا‘ محمد علی نے فلمساز کے صاحبزادے کو پیش کش کی‘ زیبا بیگم کے پاس ڈیڑھ کروڑ کے زیورات ہیں‘ آپ یہ زیورات اپنے پاس رکھ لیں لیکن فلمساز کو اس گھر میں رہنے دیں‘ آپ کو جب یہ گھر مل جائے گا تو آپ میرے زیورات مجھے واپس کر دینا مگرصاحبزادہ نہ مانا‘ یہ معاملہ طول پکڑ گیا تو صاحبزادے نے بریف کیس سے پستول نکال لیا اور والد پر تان دیا‘ والد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ وہ اٹھ کر اندر گئے‘ چیک بک لے کر آئے‘ ساٹھ ستر لاکھ روپے کا چیک کاٹا‘ یہ چیک صاحبزادے کے حوالے کیا اور آنکھیں نیچے کر کے بولے‘ آپ یہ رقم لو اور مجھے اس کے بعد کبھی اپنی شکل نہ دکھانا‘ اس نے وہ چیک جیب میں ڈالا اور نعیم بخاری کے ساتھ واپس چلا گیا‘ وہ فلمساز 1983ء میں انتقال کر گئے‘ انتقال کے وقت ان کا کوئی اپنا وہاں موجودنہیں تھا‘ نعیم بخاری صاحب کے بقول ’’یہ منظر دیکھنے کے بعد میرے دل میں پوری زندگی کے لیے دولت کی خواہش ختم ہو گئی‘‘۔
ہم سے زندگی میں صرف دس چیزیں بے وفائی کرتی ہیں‘ ہم اگر ان دس بیوفاؤں کی فہرست بنائیں تو عہدہ دولت اور اولاد پہلے تین نمبر پر آئے گی‘ ہم عہدے کے لیے ایمان‘ عزت‘ سیلف ریسپیکٹ‘ اخلاقیات‘ صحت اور خاندان تک قربان کر دیتے ہیں لیکن یہ عہدہ سب سے زیادہ بے وفا نکلتا ہے ‘ میں نے کرسی پر بیٹھے لوگوں کو فرعون اور نمرود بنتے بھی دیکھا اور ’’نسلیں ختم کردو‘‘ جیسے احکامات جاری کرتے بھی لیکن پھر جب عہدے نے بے وفائی کی تو میں نے اپنی آنکھوں سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جیسے با اختیار لوگوں کو بھی عدالتوں کے باہر گندی اینٹوں اور قلعوں کی حبس زدہ کوٹھڑیوں میں محبوس دیکھا‘ میں نے بے شمار ارب اور کھرب پتی لوگوں کو پیسے پیسے کا محتاج ہوتے بھی دیکھا‘؟
دولت مند غریب ہو گئے‘ مالک ملازم بن گئے اور نمبردار وقت کے سیاہ صفحوں میں جذب ہو گئے چنانچہ پھر دولت سے بڑی بے وفا چیز کیا ہوگی اور رہ گئی اولاد! میں نے بے شمار لوگوں کو اپنی اولاد سے محبت کرتے دیکھا‘ یہ لوگ پوری زندگی اپنی اولاد کے سکھ کے لیے دکھوں کے بیلنے سے گزرتے رہے لیکن پھر کیا ہوا؟ وہ اولاد زمین جائیداد کے لیے اپنے والدین کے انتقال کا انتظار کرنے لگی‘ میں نے اپنے منہ سے بچوں کو یہ کہتے سنا ’’ اباجی بہت بیمار ہیں‘ دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی مشکل آسان کر دے‘‘ اور یہ وہ باپ تھا جو بچوں کے نوالوں کے لیے اپنا ضمیر تک بیچ آتا تھا‘
میں نے ایسے مناظر بھی دیکھے‘ باباجی کے سارے بچے ملک سے باہر چلے گئے۔ بابا جی نے تنہائی کی چادر بُن بُن کر زندگی کے آخری دن گزارے‘ انتقال ہوا تو بچوں کو وقت پر سیٹ نہ مل سکی‘ چنانچہ تدفین کی ذمے داری ایدھی فاؤنڈیشن نے نبھائی یا پھر محلے داروں نے!‘
یہ ہے کُل زندگی! اولاد‘ دولت اور عہدے کی بے وفائی ان بے وفائیوں کے داغ اور آخر میں قبر کا اندھیرا ۔ یہ حقیقت ہے جس سے ہر شخص واقف ہے لیکن اس کے باوجود انسان کا کمال ہے‘ یہ دیکھتا ہے لیکن اسے نظر نہیں آتا‘ یہ سنتا ہے لیکن اسے سنائی نہیں دیتا اور یہ سمجھتا ہے لیکن اسے سمجھایا نہیں جا سکتا‘ ہر روز لوگوں کو تباہ ہوتا، مرتا، ذلیل ہوتا دیکھتا ہے مگر یہ ہر بار خود کو یقین دلاتا ہے ’’ یہ میرے ساتھ نہیں ہوگا‘‘ کیوں؟ کیونکہ ’’میں دوسروں سے مختلف ہوں‘‘۔
Hi! I am a robot. I just upvoted you! I found similar content that readers might be interested in:
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=101448
Good story