خودنمائی کے شوقین

in #selfishness6 years ago

ایک منچلے نے ہم سے بڑے معنی خیز سوال پوچھئے ہیں اس نے پوچھا ہے کبھی حساب لگا کر بتائیے کہ اس ملک میں قائداعظم‘ علامہ اقبال ‘ مادر ملت اور شہید ملت لیاقت علی خان کے نام سے کتنے ادارے ہیں اور شریفوں اوربھٹوؤں کے نام سے کتنے ؟ کیا یہ ملک ایک امانت ہے یا چند لوگوں یا خاندانوں کی چراگا ہ؟ کیا ہم مہذب دنیا کی ریاست کے باشندے ہیں یا چند خاندانوں کی جاگیر کے مویشی؟ انہیں اپنے نام سے اتنی ہی محبت ہے تو قومی خزانے کیساتھ واردات کرنے کے بجائے اپنی جیب سے یہ ادارے کیوں نہیں بناتے ؟ انہیں یہ غلط فہمی کب سے ہو گئی کہ ہم انہیں مال غنیمت میں ملے ہیں ؟ ان سوالات کے جواب میں ہم صرف اتنا کہیں گے کہ مقام شکر ہے کہ اب اس ملک کا ایک عام آدمی اس قسم کے پرمغز سوالات کھل کر کرنے لگا ہے اگر تو کسی حکمران نے کوئی ترقیاتی منصوبہ اپنی جیب سے بنایا ہے تو پھر چلو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر وہ کسی عمارت کسی روڈ کسی ہسپتال وغیرہ پر اپنے نام کی تختی نصب کروا دے یا اس منصوبے کو اس کے نام سے منسوب کر دیا جائے لیکن ٹیکس دہندگان سے وصول کئے گئے پیسوں پر کئے جانے والے کاموں پر اگر کوئی صدر ‘ وزیراعظم ‘ گورنر یا وزیراعلیٰ اپنے نام کی تختی لگاتاہے یا ان کے حواری اس منصوبے کو ان کے نام سے منسوب کرتے ہیں تو یہ ان سب کیلئے یقیناًشرم کا مقام ہے خیبر پختونخوا میں کسی دو ر میں ایک سینئر بیورو کریٹ ہوا کرتے تھے ان کو اس بات کا از حد شو ق چرایا ہوا تھا کہ جس ڈویژن یا ضلع میں ان کی بطور کمشنر یا ڈپٹی کمشنر تعیناتی ہوتی اور وہاں وہ کسی ترقیاتی منصوبے کو اپنے دور ملازمت میں مکمل کرواتے یا اس کا افتتاح کرتے تو ان کا طریقہ واردات یہ ہوتا کہ اس علاقے کے چند بزرگوں کے منہ سے یہ مطالبہ کروا دیتے کہ اس منصوبے کو ان کے نام سے منسوب کر دیا جائے چنانچہ خیبر پختونخوا کے کئی شہروں میں ان کے نام سے منسوب آپ کو رہائشی کالونیوں‘ روڈوں ‘ پلوں ‘ کھیل کے میدانوں وغیرہ وغیر ہ کے نام ملیں گے‘ ۔

ایک مرتبہ مانسہرہ کے عمائدین کو جب یہ بھنک پڑی کہ موصوف اس ضلع میں ایک روڈ کو اپنے نام منسوب کروانے کا سوچ رہے ہیں تو ایک بزرگ نے کھلی کچہری میں ان پر طنز کا ایک وار کرتے ہوئے ببانگ دہل ان کے منہ پر یہ کہہ دیا کہ حضور بہتر نہ ہو گا اگر ہم مانسہرہ کا نام بھی آپ کے نام سے منسوب کر دیں؟ویسے گمنامی میں رہ کر انسانیت کی خدمت کرنے میں اللہ پاک نے جو مزہ رکھا ہے اس کا جواب نہیں ‘ یہاں پر ہمیں مشہور فرانسیسی صحافی ‘ دانشو ر ‘ فلسفی او ر نا ؤل نگا رژاں پال سارترے سے منسوب ایک قصہ یاد آ گیا ہے وہ ایک دن حسب معمول شام کے واک کے بعد جب اپنے گھر پہنچے تو دیکھا کہ ان کے ڈرائنگ روم میں ان کا ایک قریبی دوست ٹیلی ویژن لگائے بیٹھا ہے اور خبریں سن رہا ہے جونہی ژاں پال سارترے گھر میں داخل ہوئے تو ان کے اس دوست نے ان سے لپک کر کہایار تمہیں پتہ ہے تمہیں تمہارے ناؤل پر نوبل پرائز دیا گیا ہے۔

ابھی ابھی ٹی وی والوں نے یہ خبر نشر کی ہے اپنے دوست کی منہ سے اس خوشخبری کو سننے کے بعد ژاں پال سارترے نے ایک بڑا معنی خیز تاریخی جملہ کہا انہوں نے کہا ’’افسوس میں نے گمنامی کی حالت میں مرنے کا موقعہ گنوا دیا ‘‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ژاں پال سارترے جیسی سوچ رکھنے والے لوگ اس دنیا میں ہیں ہی کتنے ؟ آٹے میں نمک کے برابر اپنے ہاں تو ہر دوسراشخص پبلسٹی کا شوقین ہے اگر وہ کسی غریب کی صورت میں مدد کر رہا ہے اسے زکواۃ دے رہا ہے یا کوئی خیراتی ہسپتال چلا رہا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا فوٹو اخبار میں ضرورچھپے۔