اصل مقابلہ

in #real6 years ago

پچھلے دو تین ماہ سے سیاسی جماعتوں میں بغاوتیں اور شمولیتیں عروج پر ہیں جس جس کوشک تھا کہ موجودہ سیاسی وابستگی اسے انتخابی امیدواروں کے پلیٹ فارم کا ٹکٹ نہیں دلا پائے گی یا اس پلیٹ فارم سے وہ فتح کی گاڑی نہیں پکڑ پائے گااس نے انتخابی اکھاڑے تک رسائی کیلئے نئے کندھے ڈھونڈ لئے ‘سیاسی جماعتوں نے بھی الیکشن جیتنے کی اہلیت رکھنے والے امیدواروں کی خوب حوصلہ افزائی کی یوں بہت سے حلقوں میں بظاہر آنے والے عام انتخابات میں مقا بلہ وننگ ہارسز اور نسبتاََ نئے چہروں کے درمیان ہوتا دکھائی دے رہا ہے، لیکن درحقیقت اصل مقابلہ عوام کے دو طبقات کے درمیان ہو گا‘ایک وہ جو چھوٹے چھوٹے مفادات کی بنیاد پر وننگ ہارسز کو اسمبلیوں تک پہنچانے کا باعث بنتا ہے اور دوسرا وہ جس کی قلیل تعداد تو انتخابی عمل میں شریک ہوتی ہے تاہم واضح اکثریت محض تما شائی بنی حکومتیں بننے اور گرنے کا نظارہ کرتی رہتی ہے‘ایک سروے کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح60فیصد کے آس پاس ہے یعنی آدھے سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو غربت و افلاس کو اپنی تقدیر بنائے جی رہے ہیں‘ ۔

اسکا مطلب یہ نہیں کہ باقی سب کو عیا شی کا سامان میسر ہے ‘ان میں سے بھی اکثریت اس طبقے کی ہے جسے متوسط یا مڈل کلاس کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس میں بھی لوئر اور اپر مڈل کلاس کی تخصیص مو جود ہے ‘دوسرے لفظوں میں پاکستان میں وہ طبقہ جس کو حقیقی معنوں میں مالی لحاظ سے آسودہ یا مالدار قرار دیا جا سکتا ہے ملک کی مجموعی آبادی کا 20فیصد بھی نہیں بنتا پھر بھی منتخب اداروں میں اسی کلاس سے تعلق رکھنے والے ملک کی تقدیر کے فیصلے کرتے نظر آتے ہیں جبکہ باقی کے 80فیصد عوام کو ملک و قوم کے مستقبل کی منصوبہ بندی میں شرکت کا موقع ہی نہیں ملتا۔ملک میں اسمبلیاں انتخابات کے نتیجے میں وجود پا تی ہیں اور اسمبلیوں کی آرام دہ نشستوں تک پہنچنے والے عوامی نمائندے بھی ووٹوں ہی کے ذریعے منتخب ہو کر آتے ہیں ‘ان ووٹوں کے ذریعے جو مخصوص عمل سے گزرنے کے بعد بیلٹ بکسز میں اترتے ہیں۔ مانا کہ دھاندلی بھی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہے لیکن اب ایسا اندھیر بھی نہیں کہ صرف دھاندلی کی طاقت سے ہار اور جیت کے درمیان کئی ہزار ووٹوں کی دیوار کھڑی کر دی جائے‘مختصراََ یہ کہ اگر سرمایہ دار ‘ جا گیر دار‘ وڈیرے ‘ سردار ‘ خان خوانین ‘نواب اور اس طرح کے دیگر افراد منتخب اداروں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں تو اسکے براہ راست ذمہ دار عوام بھی ہیں ‘وہ بھی جو لائنوں میں لگ کر ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے کا اختیار تفویض کرتے ہیں اور وہ بھی جو حق رائے دہی کے استعمال کا اہم ترین فریضہ ادا نہیں کرتے ‘کہیں مخصوص جذباتی نعروں اور پارٹی وابستگی کے حصار‘ ذات برادری ‘قوم قبیلے ‘ ذاتی تعلقات‘ احسانات کے بوجھ کی بنیاد پر ووٹ کا استعمال ۔

‘ کہیں ملازمت کے حصول یا دیگر زرائع سے مالی منفعت میں مدد گلی محلے یا سڑک کی تعمیر ومرمت جیسے کاموں میں اعانت اور خوشی غمی میں شرکت جیسے عوامل کو سامنے رکھ کر حق رائے دہی کے استعمال اور کہیں غلامانہ اور پسماندہ ذہنیت کے دباؤ میں بیلٹ پیپر پر انگوٹھے لگانے کے رجحان نے بتدریج منتخب اداروں کو متوسط اور غریب طبقے کے لئے شجر ممنوعہ بنا ڈالا ہے یہ رجحان ابھی بر قرار ہے‘ یہ ذہنیت ابھی سوچ و فکر کی دیواروں سے پوری طرح کھرچی نہیں جاسکی اس لئے امکان ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں بھی اس رجحان اور اس ذہنیت سے فائدہ اٹھا کر سابقہ انتخابی روایا ت کو بر قرار رکھنے کی کوشش کی جائے گی جس کا فائدہ یقیناًوننگ ہارسز کو ہو گا جبکہ مملکت’سٹیٹس کو ‘کا شکار رہے گی ۔ہاں اگر خاموش اکثریت بول اٹھی‘عوام کا وہ طبقہ جو انتخابات کو بے کار اور بے معنی عمل گردان کر انتخابات اور سیاست سے لاتعلق ہو بیٹھا ہے گھروں سے نکل کر بیلٹ بکس تک پہنچ گیا تو وننگ ہا رسز کا بوریا بستر لپیٹا جائے گا اسلئے انتخابات میں اصل مقا بلہ عوام کے ان دو طبقوں کے درمیان ہو گا جن میں سے ایک مملکت کو’سٹیٹس کو‘ کی جانب دھکیل سکتا ہے جبکہ دوسرا حقیقی تبدیلی کی بنیاد رکھ سکتا ہے ‘ وہ جماعتیں جو مملکت کی سیاست پر طاری جمود ٹوٹنے کے نتیجے ہی میں اقتدار کے حصول میں کامیاب ہو سکتی ہیں‘جواختیار کی طاقت سے ملک کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں مخلص ہیں اگر کامیابی چاہتی ہیں تو انھیں اپنی توانا ئیاں یکجا کر کے عوام کی اس اکثریت کو گھروں سے نکال کر بیلٹ بکسز تک پہنچانا ہو گا جو حقیقی تبدیلی کی بنیاد فراہم کر سکتی ہے ۔