💐 ذرا پڑھ ترس آئے گا پھر سوچ کر مشورہ کر........
🖋 ابو مسیحا مفیض جاوید بخاری.....
قارئین کرام
چند ایام قبل گروپ کے اندر ایک اعلان پڑھنے کا موقع ملا جس میں اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ امام، مؤذن اور اساتذہ کرام کی تنخواہ کتنی ہونی چاہئے تاکہ دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی اپنی حوائجات وضروریات اچھی طرح سے پوری کر سکے آپ اور ہم اچھی طرح سے واقف ہیں کہ دنیا کے ساز وسامان کی قیمت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے گھٹنے کا نام ہی نہیں ہے اور شاید قیمت میں اضافہ کا سلسلہ قیامت تک جاری وساری رہے گا اسی کے پیش نظر شاید جمعية علماء ہند نے ان ائمہ عظام، مؤذن حضرات اور اساتذہ کرام کی اضطرای اور پریشانی کی حالات پر ترس کھا کر یہ قدم اٹھائے ہیں ....
قارئین کرام
میں ان علماء کرام ورھبان عظام کو تہ دل سے مبارک بادی پیش کرتا ہوں اور انہیں اس مبارک کام پر داد بھی دیتا ہوں کہ آپ دانشواران قوم نے حالات کا ادراک رکھتے ہوئے ایک ضخیم مسئلہ پر غور کئے ہیں اور وقت کا بھی یہی تقاضا تھا
لوگ اپنی اپنی حاجات وضروریات آسانی اورسہولیات کے ساتھ مکمل کر لیتے ہیں،مشکل سے مشکل کام کو فوراً سمیٹ لیتے ہیں لیکن ان اماموں، مؤذنوں اور معلمین کی غربتی، مفلسی کی طرف نہیں جھانکتے، اورانہیں انسانیت کی نظر کرم سے بھی نہیں دیکھتے جو ائمہ، مؤذن اور معلمین اپنے اپنے مکان ومسکن ،اعزاء واقارب اور دیگر امور کو ترک کرکے ہمہ وقت آپ کے مابین اجنبی بن کر رہ رہے ہیں، دین کی خاطر، اللہ کی رضا کی خاطر، نیکی وبھلائی کی خاطر، اسلام کی نشر واشاعت کی خاطر، اور دعوت وتبلیغ کی خاطر اپنی تمام دولت، ثروت اور دیگر مشغولیت ومصروفیت کو قربان کرکے ایک ہی جگہ اپنی قدم کو جمائے ہوئے ہیں،
یہ بات تو قابل تعریف ہے کہ انہوں نے وقت کو اللہ تعالی کی عبادت میں لگایا ، وقت کی قدر کی ،اور ان کی اہمیت کو سمجھا، ٹائم کو اللہ کی پرستش میں گزرنے کا علم دیا، شب وروز رہ کر اپنی ڈیوٹی کو کما حقہ ادا کیا، لیکن دنیا میں ان پابندی کے ساتھ ڈیوٹی کرنےکا کیا صلہ ملا اور کما حقہ وِظائف کرنے کا کیا بدلہ ملا انہیں تو اس مقدار میں تنخواہ ملی جس سے وہ اپنی ادھی ضروریات پوری کر سکتے ہیں اور ادھی ضروریات کی بھر پائی کہاں سے کریں گے چنانچہ وہ حسب ضرورت تنخواہ نہ ملنے کی وجہ مایوس ہوجاتے ہیں اور اولاد واحفاد کی صحیح تربیت وپرداخت نہیں کر پاتے ہیں، اچھے ادارے ومدارس میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا جس کی کمی آخری سانس تک اٹھانا پڑتا ہے
آزاد لوگوں کی طرح ان کی چھٹی بھی نہ کے برابر ہے اور تعطیل بھی دیتے تو پابندی اور متعین وقت کے ساتھ محدود ایام کی اور اس کی خلاف ورزی پر تنخواہ کا کاٹ لینا یا دوسرا امام کی تلاشی کرنا البتہ تمام قسم کی پریشانی ان ہی امامون، مؤذنوں اور اساتذہ کرام کے ساتھ ہوتی ہے..........
قارئین کرام
مسجد اللہ کا گھر ہے مصلیان حضرات اس کی زینت ہے، جب امام نماز کے لئے اللہ کے بارگاہ میں کھڑے ہوتے ہیں اور مقتدی حضرات اس کے پیچھے قیام کرتے ہیں اس وقت کا منظر بہت ہی خوبصورت لگتی ہے لیکن عوام نے اصل زینت کو چھوڑ کر مسجد کی سزاوٹ اور رنگنے میں لگے ہیں ہر سال زینت پر زینت کرنے کا ارادہ کرتا رہتا ہےٹائلس نہیں مربل لگانے کی ضرورت ہے پنکھا نہیں اِیُسِی لگانے کی ضرورت ہے مگر اس مسجد کے امام کی اس مقدار تنخواہ میں اپنی ضروریات پوری کر پاتے ہیں یا نہیں اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا اور اس کے بارے میں سوال کرنے والا انسان نہیں ہوتا مسجد کی زینت پر زینت کرنا ضروری نہیں ہے اس کے بدلے ایک محتاج انسان کی حاجات کو پورا کرنا لابدی ہے
ایک انسان کا دوسرے انسان کی حاجات وضروریات کو سمجھنا، ان کے مصیبت وتکلیف میں شامل ہونا، سکھ دکھ میں ساتھ دینا ،ایک دوسرے کو حقیر نہ جاننا، ان کا مدد وتعاون کرنا اور ان کے حقوق دلانا ایک منصف پرداز انسان کی علامت ہے جب کسی انسان پر ظلم ہو رہا ہو انہیں اپنےحقوق کا انصاف نہ مل رہا ہو تو وہاں کے سلطان وامیر کو چاہئے کہ ان کے ساتھ صحیح انصاف کرے اور ان کے حق دلائے
علماء کرام کی ذمہ داری ہے سماج ومعاشرے میں رہنے والے افراد کی چھوٹی سوچ کو بدلنا ہوگا اور سمجھانا ہوگا کہ امام، مؤذن اور اساتذہ کرام کی عزت کرے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے، انہیں معیاری تنخواہ دے جس سے وہ اپنی ضروریات کو اچھی طرح پورا کر سکے، اپنے لئے جو چیز پسند کرے وہی ان کے لئے بھی پسند کرے کبھی بھی نفرت اور حقیر نگاہ سے نہ دیکھے
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ ائمہ عظام ،مؤذن حضرات اور اساتذہ کرام کے ساتھ صحیح انصاف کرنے اور ان ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق دیں آمین