نہ جانے بعض لوگ جوڈیشل ایکٹیوازم پر کیوں سیخ پا ہو جاتے ہیں ؟ عدالت عظمیٰ نے بعض امور میں جو از خود نوٹس لیا ہے اسکے کئی جگہوں پر اس ملک کے عام آدمی کو بڑے فائدے پہنچے ہیں مثلاً موبائل کارڈ کو ری چارج کرنے کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے گااگر کوئی عام شہری سو روپے کا ری چارج کرواتا تو تقریباً چالیس روپے تو فوراً ہی ری چارج کراتے وقت ہی اسکے سو روپے سے کاٹ لئے جاتے اوربہانہ یہ کیا جاتا کہ یہ کٹوتی مختلف اقسام کے ٹیکسوں کی مد میں کی گئی ہے کسی کو پتہ نہ ہوتا کہ آخر اتنی خطیر رقم کیوں کاٹی گئی اور آخراس کا مصرف کہاں ہوا ہے یا ہو گا اندھیرنگری چوپٹ راج والی بات تھی یہ تو بھلا ہو عدالت عظمیٰ کا کہ اسکی مداخلت سے سردست کچھ عرصے تک یہ بلا عوام کے سر سے ٹل گئی ہے لیکن اس کا ایف بی آر کو ایک جامع اور منصفانہ نعم البدل تلاش کرنا ہوگا ہم پہلے بھی کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ ٹیکسوں کی وصولی کے بغیرحکومتیں نہیں چلا کرتیں لیکن ٹیکسوں کا نفاذ حصہ بقدر جثہ ہونا چاہئے موٹی توندوں اور گردنوں پر زیادہ ہو اور غرباء و مساکین پر تو بالکل نہیں ہونا چاہئے اور اگر ہو بھی تو انکی جیب کو دیکھا جائے غریب اور امیر کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا بھلا کہاں کا انصاف ہے ؟افسوس کہ ہماری پارلیمنٹ کو کبھی بھی اس اندھیر نگری کا خیال تک نہ آیا کہ جو موبائل کمپنیوں نے مچا رکھی تھی جو کام اس کو عوامی مفاد میں کرنا چاہئے تھا اسے سپریم کورٹ کو کرنا پڑا پھر بھی نہ جانے پارلیمنٹرینز کو کیوں گلا ہوتا ہے کہ عدلیہ ہر چیز میں مداخلت کرتی ہے بھئی اگر دیگر ریاستی ادارے اپنا کام کاج چھوڑ دیں تو پھر لوگ کیا کریں انہیں مجبوراً عدالت عظمی کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے اور یا پھر عدلیہ کو میڈیا میں عوام کا کسی معاملے میں واویلا سننے کے بعد بہ امر مجبور ی میدان میں کودنا پڑتا ہے ایف بی آر موبائل کمپنیوں کیساتھ مل کر ری چارج پر ٹیکسوں کی کٹوتی کا جو بھی نیا نظام وضع کرے اس میں غریب آدمی کی جیب کا خیال رکھا جائے ۔
اور ا س میں صاف صاف درج ہو کہ اس کٹوتی میں کس قسم کے ٹیکس وصول کئے جا رہے ہیں شکوک اور شبہات اس لئے جنم لیتے ہیں کہ حکومتیں اپنے ہی عوا م سے چیزیں چھپاتی ہیں‘اس ملک کے سکولوں ‘ خصوصاً سرکاری شعبے میں کام کرنیوالے سکولوں میں دی جانیوالی تعلیم کا معیار صرف اس صورت میں بلند ہو گا اگر اس ملک کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے والدین اپنے بال بچوں کو ان میں تعلیم دلوائیں گے ہمارے ہسپتالوں کی حالت صرف اس صورت میں سدھرے گی جب ہمارے ارباب بست و کشاد اپنا اور اپنے اہل خانہ کاعلاج سرکاری ہسپتالوں میں کروائیں گے آج کل تو اگر ان کو پیچش اور زکام بھی ہو تو وہ علاج کیلئے لندن کی پہلی فلائٹ پکڑتے ہیں ہماری سڑکوں کی حالت صرف اس وقت بہتر ہو گی اگر ہمارے ارباب اقتدار بذریعہ روڈ سفر کریں گے انگریزوں کے دور میں جب گورنر خیبر پختونخوا فاٹاکے علاقے کا دورہ کرتا تو وہ جیپ میں جایا کرتا اور اس وجہ سے سی اینڈ ڈبلیومحکمے کے ایکسین ایس ڈی او ہر وقت وضو میں رہتے اور سڑکوں کی حالت ہر وقت اچھی رہتی اسی طرح ایوب خان کے دور تک جب صدر پاکستان یا وزیراعظم کو پشاور سے لیکر کراچی تک کا سفر کرنا مقصود ہوتا تو وہ ریل میں سفر کرتے وقت آ گیا ہے کہ اس ملک میں جو حکومت بھی برسر اقتدار آئے وہ سول انتظامیہ اور پولیس کوپروٹوکول ڈیوٹی سے بالکل آزاد کروائے ان کو ہر وقت اپنے دفاتر اور فیلڈ میں عوام کی داد رسی کیلئے چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دینی چاہئے اگر اشرافیہ کو اپنی جان کا اتنا ہی خطرہ ہے تو پھر حکومت اور سیاست چھوڑ کر اپنے گھروں میں بیٹھ جائے۔