سیاحت اور مشکلات

in #politics6 years ago

عید الفطر کی سرکاری تعطیلات ختم ہونے کے باوجود بھی خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں کا رخ کرنے والے سیاحوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جو ماضی کے مقابلے غیرمعمولی ہے اور اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ برس ملکہ کوہسار مری میں سیاحوں سے بدتمیزی کے متعدد واقعات پیش آئے جسکی وجہ سے ہر سال تہواروں کے موقع پر سیاحت کرنیوالوں نے اِس مرتبہ گلیات‘ کاغان‘ ناران اور سوات کی ان وادیوں کا رخ کیا‘جو میلوں پر پھیلے قدرتی حسن اور بہترین آب و ہوا کے حوالے اپنی مثال آپ ہیں لیکن چونکہ خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات کو آمدورفت کے لئے شاہراہیں اور قیام و طعام کی سہولیات کا معیار بہتر نہیں اسلئے مقامی و غیرملکی سیاحوں کو بسا اوقات تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ ملکہ کوہسار مری میں پیش آنیوالے بدقسمت واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے خیبرپختونخوا کی سیاحتی صنعت کومنظم اور سیاحت کے جدید تصورات سے خواندہ کیا جاسکتا ہے‘ المیہ ہے کہ بہت سے خواب چکنار چور ہوئے ہیں‘ جن میں سیاحتی صنعت بھی شامل ہے تحریک انصاف سے توقع تھی کہ یہ خیبرپختونخوا کے موجودہ سیاحتی مقامات میں سہولیات کا معیار بہتر بنائے گی لیکن مربوط سیاحتی ترقی ایک ایسا ہدف ہے‘ جس کا تعین اور پایۂ تکمیل تک پہنچانا آنیوالی حکومتوں کے لئے بھی چیلنج ہوگا۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق رواں برس عیدالفطر کی تعطیلات کے دوران گلیات کی سیر کیلئے تین لاکھ گاڑیاں جبکہ کاغان‘ شوگران‘ سری پائے‘ ناران اور مشہور جھیل سیف الملوک جانیوالے قافلے 75 ہزار گاڑیوں پر مشتمل تھے جبکہ ان مقامات پر قیام و طعام اور پارکنگ کی سہولیات کسی بھی طرح دس ہزار سیاحوں کی ضروریات کے لئے کافی نہیں‘سیاحتی مقامات پر مہنگائی کی بنیادی وجہ بھی یہ ہوتی ہے کہ وہاں اشیائے ضروریہ کی مانگ میں اچانک اضافہ ہو جاتا ہے جس سے مصنوعی مہنگائی پیدا ہوتی ہے‘ عجب ہے کہ عید الفطر کی تعطیلات میں سیاحتی مقامات کے نگران بھی چھٹیوں پر چلے جاتے ہیں اور سیاحوں کی رہنمائی کیلئے برائے نام انتظامات کئے جاتے ہیں جو قطعی ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی ٹریفک میں پھنسے سیاحوں کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کس سے رابطہ کرکے حالات جانیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئے اور کہاں جانا چاہئے‘ اگر نتھیاگلی و دیگر گلیات میں گنجائش سے زیادہ گاڑیاں بھر گئی ہیں تو کیا کسی دوسرے سیاحتی مقام کا رخ کیا جائے اور کس جگہ جایا جائے؟ایبٹ آباد خیبرپختونخوا کے سیاحتی مراکز کا گیٹ وے سٹی ہے لیکن ایبٹ آباد پہنچنا سیاحوں کے لئے سب سے زیادہ مشکل اور کٹھن ثابت ہوتا ہے حالانکہ اس سال عیدالفطر کے موقع پرہزارہ موٹروے سیکشن بھی فعال ہے لیکن چونکہ ایبٹ آباد میں داخل ہونے کے مقام سلہڈ سے بائی پاس روڈ مکمل نہیں کیا جاسکا حالانکہ اس اہم رابطہ شاہراہ کا سنگ بنیاد وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اپنی حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے سے قبل رکھا تھا۔

لیکن حکومت کے جاتے ہی ماضی کی طرح ترقیاتی کام جہاں تھے وہیں رک گئے ہیں‘حویلیاں دھمتوڑ شاہراہ اپنی جگہ موجود ہے جسکی توسیع و بہتری کا کام پانچ سال میں مکمل ہو جاتا تو بہتر تھا جو نہ صرف مقامی آبادی کا ایک دیرینہ مطالبہ رہا بلکہ سیاحوں کی حویلیاں سے نتھیاگلی آمدورفت کا بوجھ ایبٹ آباد سے منتقل ہونے کیلئے بھی اشد ضروری ہے۔ علاوہ ازیں گلیات جو کہ سرکل بکوٹ کی آٹھ یونین کونسلیں ہیں لیکن ان کونسلوں پر مشتمل تحصیل کا قیام عمل میں نہیں لایا جاسکا کیونکہ چار یونین کونسلیں دائیں اور چار بائیں طرف ہیں اور آپس میں شاہراہ کے ذریعے رابطہ نہیں رکھتیں۔ المیہ ہے کہ انگریز دور میں جن گلیات کو ترقی دی گئی‘ موجودہ سیاحتی ترقی کے ادارے بھی انہی علاقوں کو اپنی توجہات کا مرکز بنائے ہوئے ہیں‘ جو پہلے سے موجود و معروف ہیں‘ جنت نظیر وادیوں میں رہنے والی مقامی آبادی کی مشکلات و مسائل کا احساس بھی ہونا چاہئے‘ تحریک انصاف کو یہ اِعزاز حاصل ہے کہ مئی دوہزار تیرہ سے اٹھارہ پر محیط دور حکومت میں ہزارہ ڈویژن کے بالائی سیاحتی علاقوں کی آٹھ یونین کونسلوں کو ’گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ میں شامل کر دیا گیا لیکن مذکورہ علاقے اِس سے زیادہ عملی اقدامات و توجہ کے مستحق ہیں کیونکہ بالائی ایبٹ آباد قیام پاکستان سے نظرانداز چلا آ رہا ہے! سیاحت کی ترقی‘ مقامی آبادی کو نظرانداز کئے بناء ممکن نہیں۔ صحت مند تفریح اور اہل خانہ کے ہمراہ سیاحتی مواقعوں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن کچھ دردمندی ان طبقات کیلئے بھی مخصوص ہونی چاہئے جن کی آنکھوں میں سوائے محرومی کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔