یہ تو دید کا حصہ ہے
ہر منظر اک قصہ ہے
نصیب تَوانسان ہی ہے
یہ توتقدیر میں لکھا ہے
سوچ فلسفہ تونہیں یہ،
خیالِ محبوب کا سلیقہ ہے
ستم بھی اک مزا ہے
پریہ ذرا سا تیکھا ہے
کشکولِ توجہ لیے پھرنا
کب کس کو دِکھا ہے
رخ کو موڑ کر چپ ہونا
سب نےکمان سےسیکھا ہے
ٹوٹ کر نہ یہ رہ سکے
دل اک ایسا شیشہ ہے
بانٹ کےاک ہیرا کہ اٹھا
کیا یہاں کوی ہیرابکا ہے؟
احتجاج محبت جوتھی نہ
اس کا سردار جھکا ہے