پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی

in #peshawar6 years ago

ایک محتاط اندازے کے مطابق 2007 کے بعد دنیا میں ہونیوالی غیر فطری اموات کی سب سے زیادہ شرح دل کی بیماریوں کی ہے‘ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں امراض قلب سے ہونیوالی اموات کی شرح اور بھی زیادہ پریشان کن ہے‘ ا عداد وشمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ ہونیوالی اموات میں ہر تیسری موت امراض قلب کے باعث ہوتی ہے‘ اس طرح امراض قلب سے سالانہ شرح اموات 30فیصد ہے جو اس خطے میں سب سے زیادہ ہے‘ امراض قلب کے علاج معالجے کیلئے ویسے تو پشاور کے تینوں بڑے تدریسی ہسپتالوں میں یونٹ موجود ہیں لیکن پچھلے چند سالوں کے دوران امراض قلب کی شرح میں تیزی سے جو اضافہ ہوا ہے اسکے باعث صوبے کے ان تینوں بڑے ہسپتالوں میں موجود سہولیات نہ صرف کم پڑ رہی ہیں بلکہ انکا معیار بھی وہ نہیں ہے جس کی ضرورت امراض قلب میں بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے محسوس ہو رہی ہے ‘ان بڑھتے ہوئے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے 2005 میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے صوبے میں پہلے سٹیٹ آف دی آرٹ امراض قلب کے ہسپتال پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے منصوبے کا آغازفیز 5 حیات آباد میں 34کنال کے رقبے پر کیا تھا ایم ایم اے حکومت کے خاتمے کے بعد اسے سرد خانے کی نذرکیاگیا۔

واضح رہے کہ پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے زیر بحث منصوبے پرابتدائی اخراجات کا تخمینہ تقریباً 1794.42 ملین روپے لگایا گیا تھا جو وقت پر تکمیل نہ پانے کے باعث اب تقریباًپانچ ارب روپے تک پہنچ چکا ہے‘اس منصوبے کا ایک اور تاریک پہلو یہ ہے کہ یہ منصوبہ گزشتہ حکومت کی پانچ سالہ مدت میں بھی فنکشنل نہیں ہو سکا حالانکہ پی ٹی آئی حکومت صحت کے شعبے میں اصلاحات کے ایجنڈے کیساتھ برسراقتدار آئی تھی اور پانچ سالہ اقتدار کے دوران بھی اس کامسلسل یہ دعویٰ رہا کہ اس نے صحت کے شعبے میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دی ہیں اس کی نظیر ماضی کی کسی حکومت میں نہیں ملتی لیکن اس سوال کا جواب ہنوز راز کے سو پردوں میں چھپا ہوا ہے کہ اپنے پانچ سالہ عرصہ اقتدار میں اس اہم منصوبے کو کیونکر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکی‘ یاد رہے کہ اپریل 2016 میں جب اس وقت کے صوبائی وزیر صحت نے اس منصوبے میں غیر ضروری تاخیر کا نوٹس لیتے ہوئے 30 جون 2016 تک اسکے سول ورک کی تکمیل کی حتمی ڈیڈ لائن دی تھی تو عام خیال یہ تھایہ ہسپتال 2017 کے شروع میں فنکشنل ہوجائیگا ملحقہ علاقہ جات کے لاکھوں غریب عوام کیلئے بنایا گیا امراض قلب کا یہ پہلا سرکاری ہسپتال اب تک چالو ہونے کی راہ تک رہا ہے‘۔

واضح رہے کہ صوبے میں اپنی نوعیت کے اس اہم اور منفرد ہسپتال کی سب سے اہم خوبی ایک ہی چھت تلے قلب سے متعلق تمام امراض کی تشخیص اور علاج کی سہولیات کی فراہمی ہو گی ‘یہاں روٹین کی چیک اپ‘ انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی سے لے کر بائی پاس آپریشن تک کی تمام جدید سہولیات کے علاوہ روزانہ اوسطاً 400مریض دیکھنے کی گنجائش رکھی گئی ہے ‘جب کہ انجیو پلاسٹی کیلئے الگ سے 6 یونٹ مختص کئے گئے ہیں جہاں روزانہ اوسطاً 30 انجیو پلاسٹی کی جا سکیں گی ‘ ایمرجنسی مریضوں کیلئے گراؤنڈ فلور پر 50بستروں پر مشتمل ایمرجنسی یونٹ کیساتھ ساتھ شدید بیمار مریضوں کیلئے 50 بستروں پر مشتمل انتہائی نگہداشت وارڈ بھی اس منصوبے کا حصہ ہے ‘ اس جدید ترین ہسپتال میں 6 آپریشن تھیٹروں کے علاوہ کارڈئیک سرجری جنرل وارڈ ‘ ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ ‘ پتھالوجی ڈیپارٹمنٹ ‘ نیوکلےئر کارڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ ‘ ای ٹی ٹی ڈیپارٹمنٹ ‘ ایکوکارڈیو گرافی ڈیپارٹمنٹ ‘کرونری کےئر یونٹ ‘ سی ایس ایس ڈی ‘ انجیو گرافی ڈیپارٹمنٹ ‘ بلڈبینک ‘ میڈیکل گیسز‘ اوپی ڈی ‘ انتظار گاہ ‘ اکیڈیمک بلاک‘ سوشل سروسز ‘ سنٹرل ائرکنڈیشننگ‘کمپیوٹرایزیشن‘ فائر سیفٹی‘ فائر فائیٹنگ سسٹم ‘سی سی ٹی وی سرویلنس سسٹم ‘ کیفے ٹیریا‘ریکریشن سنٹر‘ فارمیسی‘کال سنٹر‘ لائبریری‘ ڈاکٹرز ‘پیرامیڈیکس اور نرسز ہاسٹل اور رہائشی فلیٹس شامل ہیں ‘ پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا ایک اور منفرد اور اہم پہلو یہاں ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کو امراض قلب سے متعلق فراہم کی جانیوالی ٹریننگ ہو گی جب کہ یہاں امراض قلب کی تشخیص اور تحقیق کیلئے الگ شعبے بھی قائم کئے جائینگے ‘ توقع ہے کہ عبوری وزیر اعلیٰ جناب جسٹس دوست محمد خان عوامی فلاح و بہبود کے اس اہم ترین منصوبے کی تکمیل میں طویل ترین تاخیر کا نوٹس لیتے ہوئے اسے جلد از جلد فنکشنل بنانے کے احکامات صادر فرمائیں گے ۔