اچھی گفتگوکی ضرورت

in #need6 years ago

عیدالفطر کے موقع پر بلاول بھٹو لندن میں تھے بظاہر تو وہ وہاں اپنی خالہ زاد بہن کی شادی میں شرکت کے لئے گئے تھے پر کوئی مضائقہ نہ تھا اگر وہ بنفس نفیس لندن کے ہسپتال میں زیر علاج کلثوم نواز کی عیادت کیلئے چلے جاتے‘ سیاسی رقابتیں اپنی جگہ پر یہ تو خالصتاً ایک انسانی معاملہ تھا اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا دونوں نے یہ خبر بھی چلائی تھی کہ وہ ایسا کرینگے پارٹی ترجمان کا یہ بیان ناقابل فہم تھا کہ بلاول کا کلثوم نواز کی عیادت کو جانے کا کوئی پروگرام نہ تھا اس بیان کے دینے سے نہ دینا بہتر تھا خالی پھولوں کا گلدستہ بھیجنے سے بات نہیں بنتی مریض کی تیمارداری یا عیادت کیلئے خود جانے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا ذوالفقار علی بھٹو صاحب بھی اپنے محسن ایوب خان کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے تھے جس پر انہیں ملک کے سنجیدہ طبقے سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ بیمار ہر ایک ہوسکتا ہے اور موت بر حق ہے اس کا مزہ سب کو چکھنا ہے سیاسی عداوتوں میں انسان کو اس قدر حد نہیں پھلانگنی چاہئے کہ وہ انسانی اقدار کو بالکل پس پشت ڈال دے ‘محمد خان جونیجو کیساتھ جنرل ضیاء الحق نے کتنی زیادتی کی تھی پر جب دنیا نے ٹیلی وژن پر دیکھا کہ جونیجو صاحب ضیاء الحق کے سفر آخرت میں ان کی لحد تک بلکہ انکی تدفین کی کاروائی کے دوران بھی آخری لمحات تک انکے جسدخاکی کیساتھ موجود رہے تو اس ملک کے عام آدمی نے انکے اس اظہار ہمدردی کے عمل کو ازحد سراہا‘ عام خیال تو یہ تھا کہ وقت کیساتھ ساتھ جوں جوں ملک میں پارلیمانی جمہوریت کو پنپنے کا موقع ملے گا ۔

اس زبان میں شائستگی آجائے گی کہ جو سیاسی رہنما یا سیاسی پارٹیوں کے ورکرز ایک دوسرے کیخلاف استعمال کرتے ہیں گزشتہ کئی عشروں سے ملک میں بلاشرکت غیرے سیاسی لوگ برسراقتدار ہیں پر افسوس ہے کہ اس ضمن میں کوئی امپرومنٹ نہیں ہوئی کردار کشی‘ دشنام طرازی ان لوگوں کا شیوہ ہے کہ جو سیاست کا کاروبارہ کرتے ہیں ایک دوسرے کیخلاف ایسے ایسے الفاظ یہ لوگ استعمال کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ‘ سوشل میڈیا نے تو رہی سہی کثر بھی پوری کردی ہے آپ کے موبائل سیٹ پر ایسی ایسی وڈیوز پل بھر میں وائرل ہوجاتی ہیں کہ جو آپ اپنے اہل خانہ کیساتھ شیئر نہیں کرسکتے‘عربی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ رعایا اپنے بادشاہوں کا چلن اپناتی ہے سیاسی پارٹی کا ورکر بھی اپنی سیاسی پارٹی کے قائد کا طرز عمل اس کی بودوباش‘اس کا رہن سہن اور اسکی بول چال کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے ظاہر ہے اگر کسی سیاسی پارٹی کا قائد اپنی کسی حریف سیاسی پارٹی کے قائد یا اسکے رہنماؤں کیخلاف اخلاق سے گری ہوئی ۔

زبان استعمال کریگا تو یہ امید رکھنا کہ اس کی پارٹی کا عام ورکر اسے کاپی نہیں کریگا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے آپ ذرا پرانے سیاسی رہنماؤں کی تقاریر کے مندرجات غور سے پڑھیں تو ان میں کوئی گھٹیا قسم کی بات آپ کو نظر نہیں آئیگی کسی دور میں ہماری سیاست میں حسین شہید سہروردی ‘ باچا خان ‘ عبدالولی خان‘خان عبدالقیوم خان ‘میاں ممتاز دولتانہ‘ نوابزادہ نصر اللہ خان‘ مولانا مودوی‘مفتی محمود‘ مولانا نورانی‘ ملک فیروز نون‘ چوہدری محمد علی ‘چندریگر‘ ڈاکٹر خان صاحب‘سیف الرحمان کیانی ‘مولوی فرید‘فضل الحق چوہدری ‘ قاضی حسین احمد‘مولوی عبدالحق‘ سردار اورنگزیب گنڈہ پور ‘راجہ سکندر زمان اور ان جیسے اور کئی رہنما کہ جن کے نام سردست یاد نہیں آرہے موجود ہوتے تھے ان کے خیالات اور ان کی سیاست سے بھلے کوئی لاکھ اختلاف کرے پر یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ لوگ اگر ایک دوسرے پر تنقید بھی کرتے تو اپنی تقاریر میں الفاظ کے چناؤ کا بڑا خیال رکھتے کہ کسی کی تضحیک بھی نہ ہو اور وہ جو کہنا چاہتے ہیں وہ بھی عوام تک پہنچ جائے۔

Sort:  

Ya sub log paisy k pujari hn. Apny mufad k liye sub kuch krty hn na k awn k mufad k liye.