اور آسٹریلیا کی ویران وسعت کے عین درمیان میں ایک ایسی ویرانی میں جہاں سے نزدیک ترین انسانی آبادی ایلس سپرنگ تقریباً چارسوکلومیٹر کے فاصلے پر تھی اور جہاں سیاحوں کے لئے ایک مختصر قصبہ تھا وہاں کی پہلی شب ہم صحرا کے اندر گئے...پانچ کلومیٹر کے فاصلے پردنیا کی سب سے بڑی چٹان ہموار میدان میں9 کلومیٹر طویل سرخ چٹان الورو ابھی تک ڈھلتی دھوپ میں دکھائی دے رہی تھی...ہم سیاحوں کے اس مختصر گروپ کے ساتھ جنہوں نے ’’ خاموشی کی آوازیں‘‘ نام کے بیچ صحرا ڈنر کیلئے سینکڑوں ڈالر جلائے تھے‘ ایک کوچ میں سوار ہو کر صحراکی جانب گئے‘ پھر کچھ دور پیدل چلے اور پھر ایک نسبتاً بلند سطح پر جہاں سے سرخ چٹان کی عظمت پورے شباب پر تھی ہم ٹھہر گئے کہ ہم نے اس حیرت انگیز چٹان کو غروب کے منظر میں اترتے دیکھنا تھا...ایک موسیقار ابورخبل لوگوں کو ایک بھونپو نماساز پھونک رہے تھے اوراسکی قدیم جنگلی آواز سرخ چٹان کے آس پاس پھیلے بارشوں سے سرسبز ہو چکے صحراؤں میں سرگردان ہوتی تھی...یہ کسی حد تک سوئٹزر لینڈ کے قدیم زمانوں کے اس ساز سے مشابہت رکھتاتھا جس میں پھونک مار کر پہاڑوں میں اپنے رشتے داروں کو بلایا جاتا تھا‘تقریباً دوگز لمبے اس ساز میں پھونک مارنے کیلئے مضبوط پھیپھڑے اور سانس درکار تھا...میمونہ نہایت دھیان سے اس قدیم موسیقی کو سنتی رہی...یہاں سیاحوں کیلئے باریک اور پتلے گلاسوں میں آسٹریلیا کی مشہور وائن’’ شیراز‘‘ سرو کی جا رہی تھی اور جب میں نے ایک بہت موٹے آسٹریلوی کو بتایا کہ شیراز دراصل ایران کا ایک شہر ہے اور دنیا بھر میں وہاں کی انگوروں کی شراب مشہور تھی جس کا نام ہی ’’شیراز‘‘ تھا تو وہ غریب خوفزدہ سا ہوگیا‘ یہ پرانے زمانوں کے قصے ہیں‘ شیراز کے لوگ اندلس میں اپنی انگور کی بیلیں لے گئے اور وہاں بھی ان سے شراب کشیدکی جو یورپ بھر میں بے حد مقبول ہوئی...
انہوں نے اپنے نئے قصبے کا نام بھی شیراز رکھا جواب بھی’’ خیریز‘‘کے نام سے موجود ہے اور شیرازی انگوروں سے اب بھی وہاں وائن بنائی جاتی ہے...سورج الورو چٹان پر غروب ہونے لگا اور وہ جیسے ایک دھیمی آگ میں جلنے لگی‘ آس پاس ویرانے میں تاریکی اترتی تھی اور اسکے درمیان میں الورو چٹان کی سرخی بھڑکتی تھی اور پھر ہولے ہولے وہ مدھم ہوتی اور تاریکی میں اتر گئی...ایک کتا خوراک کی بو سونگھتا کہیں سے آنکلا...میں قریب ہو کر تصویر اتارنے کو تھا کہ ہمارے گائیڈ نے منع کر دیا یہ کتا نہیں ہے صحرا کا لگڑ بگڑ ہے اور بے حد خطرناک ہے‘ اس سے دور رہئے...غروب کے مقام سے کچھ فاصلے پر اس جنگل میں کیا ہی زبردست منگل تھا بلکہ وہ بدھ یا جمعرات بھی ہو سکتا تھا کہ ڈنر کااتنا پرتکلف اہتمام تھا...الورو چٹان نیم تاریکی میں بھی نمایاں نظر آرہی تھی اور خنکی بڑھتی جاتی تھی جسکے سدباب کیلئے ہر میز کے پہلو میں ہیٹر نصب تھے...اس کھانے کے دوران جب ہم اپنی پسند کی خوراکیں اپنی اپنی پلیٹ میں ڈال رہے تھے تو میں نے کینگرو کے گوشت کے کچھ ٹکڑے بھی منتقل کرلئے اور جب میں نے ’ مگرمچھ‘ لکھا دیکھا تو ظاہر ہے یہ سمندری خوراک تھی‘اسکے دو پارچے بھی پلیٹ میں ڈال لئے...کینگرو تو بکرے جیساتھا اور مگرمچھ...پتہ نہیں کس جیسا تھا‘ حلق سے اترتا ہی نہ تھا...کھانے کے بعد تمام روشنیاں گل کر دی گئیں اور تاریکی کے ہمراہ ستارے بھی نیچے آگئے’’ خواتین و حضرات آپ سے درخواست ہے کہ خاموشی اختیار کریں اور خاموشی کی آوازیں دھیان سے سنیں...اور صحرا کی آوازیں سنائی دینے لگیں...جانے کون کون سے جانور...جھینگر چھپکلیاں اور ٹڈے بولتے تھے اور پھر ایک خاتون اٹھیں اور انہوں نے نہایت ڈرامائی انداز میں آسمان پر روشن ستاروں کا تعارف کروایا اور ان میں مریخ بھی تھا‘ وہ سرخ تھا‘ الورو چٹان سرخ تھی اورہمارے پاؤں تلے کی صحرائی زمین بھی سرخ تھی...اساں اندر باہر لال ہے...
ساہنوں مرشد نال پیار ہے...
آسٹریلیا کے عین درمیان میں اس صحرائی شب میں ایک قدیم طلسم تھا اور میں سحرزدہ‘ سحر زدہ اور آج تک سحر زدہ...
اس ریسورٹ کا نام یولارا تھا...کہیں قریب ہی ابورخبل لوگوں کاایک گاؤں تھا‘ وہ دن میں ایک بار بس پر سوار ہو کر یولارا آتے‘ گھریلو استعمال کی اشیاء اور خوراک خرید کرواپس چلے جاتے... سیاحوں سے دور رہتے‘ فوٹوگرافی ناپسند کرتے... شاید انہیں پسند نہ تھا کہ جس سرزمین پر وہ پچھلے ہزاروں برسوں سے آباد ہیں اور وہاں وہ مقدس چٹان الورو ہے جس کی پرستش ان کا آبائی مذہب ہے وہاں باہر کے لوگ آئیں اور اس کا تقدس پامال کریں...ریسورٹ میں ابورخبل رقاص بھی ناچتے تھے اور ایک صاحب’’بوم رینگ‘‘ پھینکنے کے فن سے بھی آگاہ کرتے تھے...اگلے روز سلمان نے بمشکل ایک کار کرائے پر حاصل کی کاریں کم تھیں اور انہیں حاصل کرنے کے تمنائی بہت...اور ہم الورو چٹان کے دامن میں چلے گئے‘ میں نے اورسلمان نے جلتی دھوپ میں اسکے دامن سے لگ کر ایک مختصر ٹریک کیا...اسے سورنگ میں دیکھا‘ پانی کا وہ تالاب دیکھا جو چٹان پر برسنے والی بارشوں کے نتیجے میں لبریز ہوجاتا ہے‘ ازاں بعد ہم چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع چٹان کے ایک جمگھٹے’’ کاٹا ٹوٹا‘‘ تک گئے اور ان پر آفتاب کو غروب ہوتے دیکھا...اس سرخ منظر کو بیان کرنے کیلئے کوئی معجزہ قلم درکار ہے جو میں تو نہیں ہوں اور پھرانہی سرخ چٹانوں کے درمیان میں سے کیا آپ یقین کرینگے‘ چودھویں کے چاند کا تھال ابھرا...اب میں اگر معجزہ قلم ہوتا تو بھی بیان نہ کرسکتا‘ کل چودہویں کی رات تھی‘ شب بھر رہا چرچا ترا...
اگلی سویر...ابھی نیم تاریکی تھی‘ میری آنکھوں میں نیند کی سیاہ تتلیاں پھڑپھڑاتی تھیں اور ہم ‘ میں اور سلمان الورو چٹان پر طلوع آفتاب کا منظر دیکھنے کے پاگل پن میں چلے جاتے تھے‘ وہاں الورو چٹان کے سامنے راستے تھے جوان بلند سطحوں پر لے جاتے تھے جہاں سے طلوع آفتاب کا منظر کھلتا ہے اور وہاں اتنے لوگ پہنچ چکے تھے جیسے کسی میلے میں شرکت کرنے کیلئے آئے ہوں...بلکہ سلمان نے کہاکہ سر...لگتا ہے کہ لوگ جس طور کشاں کشاں چلے آرہے ہیں‘ عید کی نماز پڑھنے کیلئے چلے آتے ہوں...
زندگی نے وفا کی تو میں الورو چٹان پر غروب اور طلوع کے مناظر کو تفصیل سے لکھوں گا ... مختصر یہ کہ ...سحرزدہ‘ سحرزدہ!
کیا ایک کینگرو...ایک کوالاریچھ‘ سڈنی آپرا کی بادبانی کشتی آپرا ہاؤس کی عمارت اور ایک سرخ چٹان کیلئے آسٹریلیا تک کا طویل پر صعوبت سفر جائز ہے؟ ہاں‘ جائز ہے بلکہ اس براعظم تک سفر نہ کرنا‘ ناجائز ہے!ہم پاکستان کی جانب اڑے جاتے تھے اور میرے جوگرز کے تلوے سرخ تھے‘ ان میں الورو چٹان کی مٹی سرایت کر گئی تھی...تھینک یو آسٹریلیا!
great article
keep in touch, will update good ones as well
We make a community, touch to each other
What you think about this